اتوار، 1 فروری، 2015

یہاں زندگی بھی عذاب ہے یہاں موت بھی شفا نہیں

0 comments
وہ عجیب صبحِ بہار تھی
کہ سحر سے نوحہ گری رہی
مری بستیاں تھیں دُھواں دُھواں
مرے گھر میں آگ بھری رہی
میرے راستے تھے لہو لہو
مرا قریہ قریہ فگار تھا
یہ کفِ ہوا پہ زمین تھی
وہ فللک کہ مشتِ غبار تھا
کئی آبشار سے جسم تھے
کہ جو قطرہ قطرہ پگھل گئے
کئی خوش جمال طلسم تھے
جنھیں گرد باد نگل گئے
کوئی خواب نوک سناں پہ تھا
کوئی آرزو تہِ سنگ تھی
کوئی پُھول آبلہ آبلہ
کوئی شاخ مرقدِ رنگ تھی
کئی لاپتہ میری لَعبتیں
جو کسی طرف کی نہ ہوسکیں
جو نہ آنے والوں کے ساتھ تھیں
جو نہ جانے والوں کو روسکیں
کہیں تار ساز سے کٹ گئی
کسی مطربہ کی رگ گُلُو
مئے آتشیں میں وہ زہر تھا
کہ تڑخ گئے قدح و سَبُو
کوئی نَے نواز تھا دم بخود

کچھ بات ہے

0 comments
کچھ بات ہے تمہاری باتوں میں
جو بات یہاں تک آ پہنچی

ہم دِل سے گئے دِل تم پہ گیا
اور بات کہاں تک جا پہنچی . . ! !
Kuch Baat Hai Tumhari Baaton Mein
Jo Baat Yahan Tak Aa PohanChi

Hum DiL Se Gaey DiL Tum Pe Gaya
Or Baat Kahan Tak Ja PohanChi..!!

کیا ان کو دل کا حال سنانے سے فائدہ

0 comments
کیا ان کو دل کا حال سنانے سے فائدہ
ہو گا تو ہوگا نوٹ دکھانے سے فائدہ

نوک مژہ جو دل میں چبھی دل پھڑک اُٹھا
کچھ تو ہوا ہے ٹیکہ کرانے سے فائدہ

دل گم ہے اپنا، چور کا لیکن پتہ نہیں
عاشق کو کیا پولیس کے تھانے سے فائدہ

معلوم ہے دکھاتے ہیں وہ ہم کو سبز باغ
لارنس باغ شام کو جانے سے فائدہ

اب بھی وہ کہہ رہے ہیں کہ میرے بزرگ ہو
کچھ بھی ہوا نہ شیو کرانے سے فائدہ

جو نیچے جیب کے ہے میری جاں اسے چرا
عاشق کا ’’ فاؤنٹین‘‘ چرانے سے فائدہ

لق لق زمانہ ہم سے اُٹھائے فائدے
ہم نے نہ کچھ اٹھایا زمانے سے فائدہ
 

عجیب مرض اے ہجر دی لوگو

0 comments
عجیب مرض اے ہجر دی لوگو نہ اوٹھ سگیندا اے نہ بیہہ سگیندا اے،
درد خفیہ ایہ انج دا ہوندا اے نہ دس سگیندا اے نہ سہہ سگیندا اے
رحمن بے کس پرکھ کے ڈٹھا اے ایدھی حقیقت عجیب جئ اے
ایہ خاردار درخت اے یارو نہ چڑھ سگیندا اے نہ لیہہ سگیندا اے

حکم تیرا ہے

0 comments
حکم تیرا ہے تو تعمیل کیے دیتے ہیں
زندگی ہجر میں تحلیل کیے دیتے ہیں

تو میری وصل کی خواہش پہ بگڑتا کیوں ہے
راستہ ہی ہے چلو تبدیل کیے دیتے ہیں

آج سب اشکوں کو آنکھوں کے کنارے پہ بلاؤ
آج اس ہجر کی تکمیل کیے دیتے ہیں

ہم جو ہنستے ہوئے اچھے نہیں لگتے تم کو
تو حکم کر آنکھ ابھی جھیل کیے دیتے ہیں

منیر نیازی دے دو شعر

0 comments
کس دا دوش سی کس دا نئیں سی اے گلاں ہُن کرن دیاں نئیں
او ویلے لنگھ گئے توبہ والے اے راتاں ہُن بھرن دیان نئیں
کچھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سن کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
 

نعت رسولِ مقبولﷺ ۔۔۔ خالق تری تعریف میں خود محوِ ثنا ہے

0 comments
خالق تری تعریف میں خود محوِ ثنا ہے
الحمد سے والناس تلک تیری ادا ہے

خورشیدِ جہاں تاب ترے حسن کا پرتو
یہ مہرِ منور ترا نقشِ کفِ پا ہے

منزل تری آغاز وہیں سے ہوئی آقاؐ
جبریلؑ سا نوری بھی جہاں جا کے رکا ہے

یہ وقت کے دھارے بھی تو دربان ہیں تیرے
مجبور زمانہ ترے قدموں میں پڑا ہے

ہر شخص نے اوڑھا ہے شریعت کا لبادہ
ہر شخص کی پوشاک پہ تصویرِ ریا ہے

جب حشر کا دن ہو، تری قربت ہو میسر
ہم خاک نشینوں کی بس اتنی سی دعا ہے

یہ خاص کرم ہے کہ تری نعت لکھی ہے
ورنہ مری اوقات، مرا ظرف ہی کیا ہے!

اعظم سا گنہگار ترے در پہ سوالی
اے رحمتِ عالمؐ! تری رحمت بھی جدا ہے